صحیفہ کاملہ

4- دعائے روز چہار شنبہ

۴۔ دُعَآءُ یَوْمِ الْاَرْبِعَآءِ

[۴] دُعائے روز چہار شنبہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَ اللَّیْلَ لِبَاسًا، وَ النَّوْمَ سُبَاتًا، وَ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے جس نے رات کو پر دہ بنایا اور نیند کو آرام و راحت کا ذریعہ، اور دن کو حرکت و عمل کیلئے قرار دیا۔

لَكَ الْحَمْدُ اَن بَعَثْتَنِیْ مِنْ مَّرْقَدِیْ، وَ لَوْ شِئْتَ جَعَلْتَهٗ سَرْمَدًا، حَمْدًا دَآئِمًا لَّا یَنْقَطِعُ اَبَدًا، وَ لَا یُحْصِیْ لَهُ الْخَلَآئِقُ عَدَدًَا.

تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے کہ تو نے مجھے میری خواب گاہ سے زندہ اور سلامت اٹھایا، اور اگر تو چاہتا تو اسے دائمی خواب گاہ بنا دیتا، ایسی حمد جو ہمیشہ ہمیشہ رہے، جس کا سلسلہ قطع نہ ہو، اور نہ مخلوق اس کی گنتی کا شمار کر سکے۔

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ اَنْ خَلَقْتَ فَسَوَّیْتَ، وَ قَدَّرْتَ وَ قَضَیْتَ، وَ اَمَتَّ وَ اَحْیَیْتَ، وَ اَمْرَضْتَ وَ شَفَیْتَ، وَ عَافَیْتَ وَ اَبْلَیْتَ، وَ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَیْتَ، وَ عَلَى الْمُلْكِ احْتَوَیْتَ.

بار الٰہا! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے کہ تو نے پیدا کیا تو ہر لحاظ سے درست پیدا کیا، اندازہ مقرر کیا اور حکم نافذ کیا، موت دی اور زندہ کیا، بیمار ڈالا اور شفا بھی بخشی، عافیت دی اور مبتلا بھی کیا، اور تو عرش پر متمکن ہوا اور ملک پر چھا گیا۔

اَدْعُوْكَ دُعَآءَ مَنْ ضَعُفَتْ وَسِیْلَتُهٗ، وَ انْقَطَعَتْ حِیْلَتُهٗ، وَ اقْتَرَبَ اَجَلُهٗ، وَ تَدَانٰى فِی الدُّنْیَا اَمَلُهٗ، وَ اشْتَدَّتْ اِلٰى رَحْمَتِكَ فَاقَتُهٗ، وَ عَظُمَتْ لِتَفْرِیْطِهٖ حَسْرَتُهٗ، وَ كَثُرَتْ زَلَّتُهٗ وَ عَثْرَتُهٗ، وَ خَلُصَتْ لِوَجْهِكَ تَوْبَتُهٗ.

میں تجھ سے دُعا مانگنے میں اس شخص کا سا طرز عمل اختیار کرتا ہوں جس کا وسیلہ کمزور، چارۂ کار ختم اور موت کا ہنگام نزدیک ہو، دنیا میں اس کی امیدوں کا دامن سمٹ چکا ہو، اور تیری رحمت کی جانب اس کی احتیاج شدید ہو، اور اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اسے بڑی حسرت، اور اس کی لغزشوں اور خطاؤں کی کثرت ہو، اور تیری بارہ گاہ میں صدقِ نیت سے اس کی توبہ ہو چکی ہو۔

فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ، وَ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ، وَ ارْزُقْنِیْ شَفَاعَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ، وَ لَا تَحْرِمْنِیْ صُحْبَتَهٗ، اِنَّكَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.

تو اب خاتم الانبیاء محمد ﷺ اور ان کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب کر، اور مجھے ان کی ہم نشینی سے محروم نہ کر، اس لئے کہ تو تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

اَللّٰهُمَّ اقْضِ لِیْ فِی الْاَرْبِعَآءِ اَرْبَعًا: اجْعَلْ قُوَّتِیْ فِیْ طَاعَتِكَ، وَ نَشَاطِیْ فِیْ عِبَادَتِكَ، وَ رَغْبَتِیْ فِیْ ثَوَابِكَ، وَ زُهْدِیْ فِیْمَا یُوْجِبُ لِیْۤ اَلِیْمَ عِقابِكَ، اِنَّكَ لَطِیْفٌ لِّمَا تَشَآءُ.

بار الٰہا! اس روز چهار شنبہ میں میری چار حاجتیں پوری کر دے: یہ کہ اطمینان ہو تو تیری فرمانبرداری میں، سرور ہو تو تیری عبادت میں، خواہش ہو تو تیرے ثواب کی جانب اور کنارہ کشی ہو تو ان چیزوں سے جو تیرے دردناک عذاب کا باعث ہیں۔ بیشک تو جس چیز کیلئے چاہے اپنے لطف کو کار فرما کرتا ہے۔

–٭٭–

سرنامۂ دُعا میں شب و روز کی آمد و شد اور اس پر مترتب ہونے والے فوائد کا تذکرہ فرمایا ہے اور اس دُعا میں اور دُعائے صبح و شام میں بھی رات کا تذکرہ پہلے اور دن کا ذکر بعد میں ہے۔ یہ اس لئے کہ قمری مہینوں اور تاریخوں کی ابتدا رات سے ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے دن پر تقدم حاصل ہے۔ یا اس لئے کہ خاصانِ خدا کیلئے رات اللہ سے لو لگانے اور محرابِ عبادت کو آباد کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ دن کے مقابلہ میں اسے اقدمیت کا مستحق سمجھتے ہیں۔ یا اس لئے کہ قرآن مجید کے اسلوب و ترتیبِ بیان سے مطابقت برقرار رہے۔

اس شب و روز کی تقسیم سے زندگی کے کاروبار دو حصوں پر تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک حرکت و عمل اور سر و سامان معیشت مہیا کرنے کیلئے اور ایک سکون و راحت کیلئے۔ چنانچہ دن کاروبار کیلئے ہے جو سورج کی تیز روشنی سے درخشاں ہوتا ہے تا کہ کاروبارِ مشاغل میں کوئی خلل پیدا نہ ہو اور رات آرام کیلئے ہے جس میں چاند کی ہلکی شعاعیں نور پاشی کرتی ہیں تا کہ ان کی پرسکون چھاؤں میں آرام کیا جا سکے۔ قدرت نے دن کو براہ راست سورج کی سنہری کرنوں سے روشن کیا اور راتوں کو روشن کرنے کا انتظام اس طرح کیا کہ جب سورج کی روشنی زمین پر پڑے تو وہ منعکس ہو کر چاند کو روشن کرے اور چاند مختلف صورتیں بدل کر زمین کو روشن کرتا رہے۔ اس طرح کہ پہلے بتدریج روشنی میں ترقی ہو اور پھر بتدریج تنزّل تا کہ اس تبدیلی و تنوع سے اس کی کشش کم نہ ہونے پائے اور اس کے اتار چڑھاؤ کی گوناگوں کیفیتیں نظر افروزی کا سامان مہیا کرتی رہیں۔ پھر شب و روز کی مدت انسان کے قوائے عمل اور آرام و استراحت کی ضرورت کے لحاظ سے اتنی موزوں و مناسب ہے جو فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اگر دنیا میں مسلسل دن رہتا تو زمین سورج کی شعاعوں سے جل کر روئیدگی کی قوت کھو دیتی اور انسان کیلئے مناسب آرام کی صورت پیدا نہ ہوتی اور بعید نہیں کہ وہ کار و کسب کی مشغولیتوں سے گھبرا کر موت کا سہارا ڈھونڈنے لگتا۔ اور اگر مسلسل رات رہتی تو اندھیرے سے اکتا کر دیواروں سے سر ٹکرانے لگتا۔

چنانچہ انہی احکام و مصالح کی طرف دعوت فکر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۝۱۹۰ۚۙ﴾

بلا شبہ زمین و آسمان کی خلقت اور شب و روز کی آمد و شد میں اہل دانش کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔[۱]

اس کے بعد انسانی خلقت کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ و حکمت بالغہ سے متضاد عناصر میں ترکیب و ائتلاف اور ترکیب میں توازن و اعتدال کو کار فرما کیا اور انسان کو موزونی و تناسب کے سانچہ میں ڈھال کر حسن و دل آویزی کا مرقع اور اپنی جمال پسندی کا آئینہ دار بنایا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙ فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ﴾

وہ جس نے تجھے پیدا کیا تو ہر طرح سے نوک پلک درست کرکے پیدا کیا اور تیرے (اعضا میں) توازن و اعتدال قائم کیا اور جس صورت میں اس نے چاہا تیرے جوڑ آپس میں ملا دیئے۔[۲]

اگر انسانی نشو و ارتقا کے مراتب اس کے اعضا کی ترکیب و ترتیب اور ان اعضا کے مختلف وظائف و اعمال پر نظر کی جائے تو اس کے ہر گوشہ میں ایسی حکمت کار فرما نظر آئے گی جسے ایک بے شعور مادہ کی اندھا دھند تخلیق کا نتیجہ نہیں قرار دیا جا سکتا، بلکہ انسانی صورت اور اس کی زیبائی، خدو خال کی رنگینی اور اس کے نقش و نگار کی دلفریبی دیکھ کر عقل سلیم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گی کہ یہ کسی مدبر و حکیم صانع کی نقش آرائی کا کرشمہ ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِنَّ الصُّوْرَةَ الْاِنْسَانِيَّةَ هِیَ اَكْبَرُ حُجَّۃٍ لِلّٰهِ عَلٰى خَلْقِهٖ، وَ هِیَ الْكِتَابُ الَّذِیْ كَتَبَهٗ بِيَدِهٖ.

انسانی صورت مخلوقات پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی حجت و دلیل ہے۔ اور یہ وہ کتاب ہے جس کے نقوش اس نے خود اپنے ہاتھ سے کھینچے ہیں۔[۳]

نقش آرائے فطرت نے اس انسانی صحیفہ کو اس طرح سجا ہے کہ ہر خط میں خط نورس کی تازگی، ہر خم میں خم اَبرو کی کشش اور ہر نقطہ میں خالِ رخ زیبا کی حسن آرائی سمٹ آئی ہے۔ یہ جسم و صورت کی زیبائی اعضا کے تناسب سے وابستہ ہے۔ اس طرح کہ ہر عضو اپنے مناسب حال مقام پر ہے اور وہی مقام اسے زیب دیتا اور اس کیلئے موزوں و مناسب ہے۔ جو بلند ہے اسے بلندی زیب دیتی ہے اور جو پست ہے وہ پستی ہی کے قابل ہے۔ جو طاق ہے اسے طاق ہی ہونا چاہیے اور جو جفت ہے اسے جفت ہی ہونا چاہیے۔ اگر ان میں رد و بدل کر دیا جائے تو تمام حسن و رعنائی ختم ہو جائے۔

چنانچہ سر کو مرکز جمال و محل عقل و شعور ہونے کی وجہ سے سب سے بلند مقام پر جگہ دی اور اس کے گرد و پیش حواس خمسہ کے پہرے بٹھا دیئے۔ اس طرح کہ اس کے دونوں طرف باریک پردوں میں حاسہ سماعت پیدا کیا اور ان پردوں کے گرد کان بنائے جس میں ٹیڑھے میڑھے راستے ہیں۔ تا کہ آواز پیچ و خم کھاتی ہوئی ان پردوں سے ٹکرائے اور سخت و ہولناک آوازوں کے براہِ راست ٹکرانے سے پھٹ نہ جائیں اور ان میں ایک شور و متعفن مادہ پیدا کر دیا تا کہ سوتے میں یا بے خبری کی حالت میں کیڑے مکوڑے اندر گھسنے نہ پائیں اور دونوں لبوں کے اندر دانتوں کی باڑھ کھینچ کر اس میں زبان کو بند کر دیا اور اسے ما فی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا۔ اور ناک کے بانسوں میں قوت شامہ پھیلا دی تا کہ خوشبو کو راستہ دے اور بدبو کو دماغ میں گھسنے سے روک دے اور پیشانی کے نیچے اور سرکے بالائی حصہ میں آنکھوں کے دیدبان کھڑے کر دیئے تا کہ دوست و دشمن اور موافق و مخالف کی فوراً اطلاع ہو سکے اور ان میں نور کی تخلیق کرکے اس کی حفاظت کا اس طرح سامان کیا کہ پہلے اسے سات پردوں میں چھپایا،پھر ان پردوں کے آگے پھاٹک لگائے اور ان پر پلکوں کی چلمنیں ڈال دیں تا کہ خس و خاشاک اور گرد و غبار کے حملہ سے بچاؤ ہو سکے اور جسم کے ہر ہر حصہ میں قوت لامسہ دوڑا کر اس حصہ جسم کیلئے حفاظتِ خود اختیاری کا سامان کر دیا۔

یہ حواس خمسہ اپنے محسوسات کو مخصوص آلات و عصبی نظام کے ذریعہ دماغ تک پہنچاتے ہیں اور قوت حافظہ تمام نقوش کو جمع کرتی جاتی ہے اور جدا جدا عنوانات سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح کہ انسان جب چاہے یادداشت کے ورقوں میں سے ان تمام متعلقہ نقوش کو جو کسی موقع پر درکار ہوں اس طرح نکال لے جس طرح کسی کتب خانہ میں سے کسی کتاب کو ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ اور پھر قوتِ گویائی کے ذریعہ پورے پورے مرقعے ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل کئے جا سکتے ہیں اور ضبط تحریر میں لا کر انہیں دوام بھی بخشا جا سکتا ہے۔ اور یہ وہ کمال ہے جو انسانی استعداد سے وابستہ ہے۔

اگرچہ انسان کو بہت سے حسیات و قویٰ نہیں بھی دیئے گئے، لیکن اس کی شعوری دنیا میں کوئی خلا نہیں ہے۔ مثلا وہ پانی کے اندر ایک محدود عرصہ سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا، حالانکہ مچھلیاں اور دوسرے آبی جانور پانی میں رہتے، گھر بناتے اور متلاطم موجوں میں پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنے دست و بازو سے فضا میں پرواز نہیں کر سکتا، حالانکہ کبوتر، باز اور دوسرے پرندے فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ اندھیرے میں چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا حالانکہ رات کو اڑنے والے شکاری پرندے گھاس میں رینگتے ہوئے سانپوں، چوہوں اور کیڑوں کو بلندی پر سے دیکھ لیتے ہیں اور جسے ہم اندھیرا کہتے ہیں وہ ان کیلئے اجالا اور جسے ہم سکوت کہتے ہیں وہ ان کیلئے شور و ہنگامہ ہوتا ہے۔ اور پروا نے میلوں سے شمع کی خوشبو اور ان خوشبوؤں کو جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، سونگھ لیتے ہیں اور یہی قوت شامہ ان کیلئے بصارت کا کام دیتی ہے۔ اور ہرن کی دنیا میں تو خوشبوئیں بڑی فراواں ہیں۔ جو ہمارے لئے سبزہ زار ہے وہ اُس کیلئے فضائے عطر بیز ہے جس کی مختلف خوشبوئیں اس کے مشام میں بسی ہوئی ہیں۔ اور کتے اور گھوڑے بعض ان آوازوں کو سن لیتے ہیں جو ہمیں سنائی نہیں دیتیں اور بعض جانوروں کو زلزلہ، بارش، آندھی اور دوسرے آفات کا علم پہلے سے ہو جاتا ہے۔

چنانچہ علامہ نصیر الدین طوسی رحمہ اللہ کے متعلق یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ: وہ ایک مرتبہ کسی مقام پر آبادی کے باہر ایک شخص کے ہاں ٹھہرے۔ گرمی کا موسم تھا آپ نے مکان کی چھت پر بستر لگوایا۔ صاحب خانہ نے کہا کہ آپ چھت کے بجائے حجرے کے اندر آرام فرمائیں تا کہ بارش کی وجہ سے آپ کو بے آرام نہ ہونا پڑے۔اس لئے کہ آج رات کو بارش آئے گی۔ محقق رحمہ اللہ نے ہواؤں کا رخ دیکھا اور فلکی اوضاع کا جائزہ لیا اور کہا کہ بارش کے قطعاً کوئی آثار نہیں ہیں اور وہ چھت ہی پر سو گئے۔ کچھ دیر گزری ہو گی کہ بارش شروع ہو گئی۔ محققؒ کو صاحب خانہ کی پیشین گوئی پر حیرت ہوئی اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہو گیا کہ آج رات بارش ہو گی۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک کتا ہے وہ جس رات کو بارش برسنا ہوتی ہے چھت کے بجائے نیچے رہتا ہے اور آج بھی وہ نیچے رہا اور چھت پر نہیں گیا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج رات بارش ہو گی۔

اسی طرح بعض سطح سمندر پر شکار کرنے والے پرندے آنے والے طوفان سے مطلع ہو جاتے ہیں اور اس کی آمد سے پہلے خشکی پر چلے جاتے ہیں۔ اور شہد کی مکھیاں بن دیکھے سمت کو پہچان لیتی ہیں۔ چنانچہ انہیں کسی ڈبیہ میں بند کر کے کسی بھی سمت چھوڑا جائے وہ سمت پہچان کر جدھر سے لائی گئی ہیں ادھر ہی پرواز کریں گی۔ ان حسیات سے ہم بالکل نا آشنا ہیں اور ان حسیات کے فقدان کا ہمیں کچھ احساس بھی نہیں ہے کہ شعور میں کوئی خلل واقع ہو۔ بلکہ حواس خمسہ میں سے کوئی حاسہ شروع ہی سے نہ ہو تو اس کا بھی کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ایک پیدائشی اندھے کو اپنی بصارت کے نہ ہونے کا بس اتنا ہی غم ہے جتنا ایک عام آدمی کو پروں کے نہ ہونے کا۔ اس کی دنیا میں اگرچہ بصارت نہیں ہے مگر اس سے اس کے شعور میں کوئی خلل نہیں واقع ہوتا اور نہ شعور میں کوئی کمی اور نہ زندگی میں کوئی خلا محسوس کرتا ہے۔ اس لئے بعض حسیات کے نہ ہونے کے باوجود ہر شخص کی زندگی اپنے مقام پر شعوری لحاظ سے مکمل ہے، بشرطیکہ کسی شعور سے آشنا ہونے کے بعد اسے کھویا نہ ہو۔ اور ہمارے احساسات صرف اسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمارے ذہن میں آباد ہے اور انہی حسیات پر اپنی دنیا تعمیر کرتے ہیں جن سے آشنا ہوتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

[۱]۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۹۰

[۲]۔ سورہ انفطار، آیت ۸

[۳]۔ عیون مسائل النفس، حسن زادہ آملی، ص ۳۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button